آج کل کرکٹ کے ٹی20 ورلڈ کپ کے بخار نے ہر شائق، سے لیکر کرکٹ کھیلنے والے ممالک، مبصرین، ماہرین، تجزیہ نگاروں اور اشاعتی اداروں یا کمپنیز کو پوری طرح اپنے لپیٹ میں لیا ہؤا ہے۔
ایسے میں انڈیا کا کوئی جے شاہ ہے، ایسا بیان دیا ہے جس کا نہ کوئی پیر ہے نہ سر۔
اس کا کہنا ہے کہ ” انڈیا آئیندہ کے ایشیا کپ 2023 میں جو پاکستان میں منعقد ہونا ہے، شرکت نہیں کرے گا، اور ایشیا کپ کسی نیوٹرل وینیو پر منتقل کیا جائے گا “
آپ کو بتاتا چلوں کہ یہ 34 سالہ ناتجربہ کار، جے شاہ، بورڈ آف کنٹرول فار کرکٹ ان انڈیا، (BCCI) میں کوئی سیکریٹری کی حیثیت سے نوکر ہے اور پاکستان کی حمایت کی وجہ سے ایشین کرکٹ کونسل کا موجودہ صدر بھی ہے۔ اس میٹنگ میں جب موصوف ایشین کرکٹ کونسل کا صدر منتخب ہوا تھا، یہ طئہ ہوا تھا کہ 2023 کے ایشیا کپ کا میزبان پاکستان ہوگا، لیکن موصوف اپنی سیٹ پکی کرنے اور پاکستان کی حمایت حاصل کرنے کے لیئے چپ رہے تھے۔
اب اس وقت یہ بیان دینا کہ انڈیا کی ٹیم پاکستان نہیں جائے گی، ایک بھونگا اور سستی شہرت حاصل کرنے والا بیان ہے، اور اپنے آپ کو دنیا میں مشہور کروانے کے مترادف ہے۔
ایشیا کپ میں ابھی ایک سال کی تاخیر ہے لیکن موصوف کو پتہ نہیں کیا سوجھی کہ اس موقع پر ہوا نکالی اور گند کردیا، کیوں کہ اس کے بیان پر پاکستان کی طرف سے بھی جوابی کارروائی کی توقع تھی جو پی سی بی نے کی اور مختلف فارمز پر اس بیان کو تنقیدی نظر سے دیکھا گیا۔
پی سی بی کا موقف ہے کہ اگر چہ اس نے بحیثیت صدر ایشین کرکٹ کونسل، یہ فیصلہ سنایا ہے پھر بھی غلط ہے کیوں کہ اس کے قانون کے مطابق میٹنگ میں تمام میمبرز ممالک کے سامنے جو کوئی اعتراض ہے رکھتا، یہ ہوتی اصولی بات لیکن جے شاہ نے ایک ٹوئیٹ کے ذریعے پاکستان یا باقی میمبر ٹیمز کو بتایا، گویہ وہ ایشین کرکٹ کونسل کا مالک ہے یا شہنشاہ ہے جس نے اپنا فیصلہ سنادیا۔
دوسری جانب اگر اس نے بحیثیت بی سی سی آئی سیکریٹری یہ اعلان کیا ہے، پھر ایشیا کپ کسی نیوٹرل وینیو کرانے کا اعلان کیوں کیا۔
یہی وجہ ہے کہ اس اعلان کے بعد انڈیا کے وزیر کھیل نے اپنا بیان دیا کہ انڈیا ایشیا کپ کے لیئے پاکستان جائے گا یا نہیں یہ وزارت خارجہ فیصلہ کرے گی۔
اس کے بعد بی سی سی آئی کے نو منتخب صدر سابق آل راؤنڈر راجربنی نے اعلان جاری کیا کہ بی سی سی آئی کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا کہ انڈیا ایشیا کپ کے لیئے پاکستان جا کر کھیلے، لیکن اگر سرکار اجازت دے تو ممکن ہے، گویہ اس نے بھی گیند سرکار کی کورٹ میں پھینک دی۔
اگر ایسا ہے تو پاکستان کو آئی سی سی کی جانب دیکھنا ہوگا، کیونکہ آئی سی سی ایک غریب کرکٹ ٹیم زمبابوے کو سرکار کی مداخلت وجہ سے معطل کر چکی تھی، لیکن آئی سی سی جو 80 فیصد روینیو انڈیا سے حاصل کرتا ہے، کیا اس کے خلاف کوئی ایکشن لیتا ہے یا نہیں۔کیوں کہ انڈین بورڈ کھلم کھلا کہتا ہے اور سب جانتے ہیں کہ انڈین سرکار کی کرکٹ بورڈ میں کتنی مداخلت ہے۔ پھر تو آئی سی سی کے دوہرے معیار پر سوالیہ نشان لگ سکتا ہے۔
آپ یقین کریں اس بیان سے پہلے میری اپنی ذاتی سوچ تھی کہ دونوں ممالک کی حکومتیں اپنی روائتی دشمنی کو ختم کر کے وہ رقم یا سرمایہ جو اپنی جوہری طاقت کو بڑھانے میں صرف کرتے ہیں وہ خطہ کے عوام اور ان کی فلاح و بہبود میں لگائیں تو دونوں ممالک کے غریب کی لکیر سے نیچے والے اعداد و شمار میں بھی بہتری آئے گی، میں سوچ رہا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان تقریباً تمام چیزیں ایک جیسی ہیں بلکہ رشتہ داریاں ہیں، دوستیاں ہیں، لیکن پھر بھی دوریاں ہیں ،کیون۔۔۔؟؟
میری کرکٹ میں سوچ تھی کہ اے کاش دونوں ممالک ایک ہو جائیں تو کرکٹ ٹیمز بھی ایک نہیں بلکہ مکس دو ٹیمیں ہونگی، جس طرح کیریبین چار پانچ ممالک ملکر ایک ٹیم بناتے ہیں، اور دنیا میں ایک خطرناک ٹیم تشکیل دے سکتے ہیں جو ٹیسٹ کرکٹ ہو یا ایک روزہ یا ٹی20 ہو، ہر فارمیٹ میں اپنا اور اپنے علاقے کا نام روشن کیا ہے، اسی طرح انڈیا اور پاکستان کی دو ٹیمیں ہوں جو پاک۔انڈیا گاندھی الیون اور پاک۔انڈیا قائد الیون کے نام سے ہوں جن ٹیموں میں مکس کھلاڑیوں کو شامل کیا جائے تو میرا خیال ہے کہ کوئی کپ کوئی ٹرافی کوئی چیمپئن شپ ان دونوں ٹیموں کے علاوہ کوئی نہیں جیت سکتا، مطلب اتنا اس خطے میں کرکٹ کا قدرتی ٹیلینٹ موجود ہے۔
لیکن ایک تو اس کے شاہ کے بیان نے اور دوسرا ویسٹ انڈیز کا پہلی بار کسی آئی سی سی انٹرنیشنل ٹورنامنٹ میں پہلی بار کولیفائی نہ کرنا والے واقعے نے میری سوچ میں بھی کسی حد تک لچک سی پیدا کردی۔
آپ کو پتہ ہے ویسٹ انڈیز نے محدود اوورز کے پہلے دونوں عالمی ورلڈ کپس 1975 اور 1979 جیتے تھے اور ٹی20 ورلڈ کپس 2012 جبکہ 2016 میں ایک ہی دن میں دو کپس جیتے تھے (ایک وومینز ٹی20 انٹرنیشنل کپ) جو انڈیا میں منعقد ہوا تھا۔
لیکن اب ویسٹ انڈیز جیسی تاریخ ساز اور ریکارڈ ساز کا یہ حشر پتہ ہے کیوں ہے، اس لیئے کہ اب ان ممالک نے اپنے شیئر حاصل کرنے پر زیادہ توجہ دیے دی ہے کھلاڑیوں کے معیار یا فٹنس اور ان کی بہتری کے لیے کچھ خاص بندوبست نہیں کیا، کئی ایسے ویسٹ انڈین کھلاڑی ہیں جو اپنی ٹیم میں کھیلنے کے بجائے نجی لیگز کھیلنے کو ترجیح دیتے ہیں تو ایسے میں ویسٹ انڈیز کو یہ سیاہ دن بھی دیکھنے پڑے۔
اگر پاکستان اور انڈیا کی ٹیمز ایک ہو جاتی ہیں اور مذکورہ بالا ناموں سے کھیلتی ہیں تو یقیناً یہاں بھی پیسوں کا عمل دخل ہوگا اور جہاں پیسے کی بات ہوگئی وہاں اختلافات کی کافی گنجائش رہتی ہے۔
اس لیئے انڈیا یا پاکستان الگ الگ رہیں لیکن امن، پیار، شانتی اور دوستی جیسے جذبوں کو پروان چڑھائیں تو وقت کی سرکاریں عوام کے آگے اپنا موقف تبدیل کر سکتیں ہیں کیونکہ سرکاریں بھی عوام کی وجہ سے وجود میں آتی ہیں۔ مزید پڑھیں